سوشل میڈیا اور دین - جدید دور میں نیکی کا راستہ
تمہید — دورِ حاضر کا ڈیجیٹل منظرنامہ
آج ہر ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے اور ہر لمحہ آن لائن کنکشن۔ یہی وہ زمانہ ہے جہاں علم چند کلکس میں پہنچتا ہے
اور غلط فہمیاں اتنی ہی تیزی سے پھیلتی ہیں۔ یہ پلیٹ فارم فتنے، گمراہی، بےحیائی، اور غلط فہمیوں کے پھیلاؤ
میں پیش پیش ہے۔ یہ ایسا وسیلہ ہے جو بچے سے لے کر بزرگ تک سب کے لیے کھلا ہے، اور ہر شخص اپنی
مرضی کا مواد دیکھ سکتا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں پر فرض بنتا ہے کہ وہ اس پلیٹ فارم پر دینی کام پھیلائیں۔
خاص طور پر علمائے کرام کو اس میں آگے آنا چاہیے۔ جیسا کہ کچھ علماء پہلے ہی اس میں محنت کر رہے ہیں اور
لوگ اس کے فوائد بھی اٹھا رہے ہیں۔
زمانہ بدل گیا ہے۔ پہلے دین کی بات سننے کیلئے لوگ صرف مسجد اور دینی مجلس میں جاتے تھے ۔ اور علماءسے
سیکھتےتھے، اب وہ موبائل کی اسکرین پر بھی دستیاب ہیں ۔ پہلے عالم شہر شہر جا کر تبلیغ کرتے تھے، آج ایک
ویڈیو لاکھوں دلوں تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ دور فتنوں کا بھی ہے اور مواقع کا بھی۔ یہی وہ میدان ہے جہاں
شیطان بھی سرگرم ہے، اور اگر اہلِ ایمان چاہیں، تو یہی میدان نیکی کا محاذ بن سکتا ہے۔ لیکن افسوس، اس
میدان میں زیادہ تر وہ لوگ آگئے ہیں جو دین کے علم سے خالی ہیں، جن کے الفاظ میٹھے ہیں مگر بنیاد کمزور۔ اور اپنی
مرضی کے دین پیش کرتے ہیں۔
یوں نوجوان کبھی “وائرل” باتوں سے متاثر ہوتے ہیں، مگر اصل دین سے دور چلے جاتے ہیں۔ اسی لیے
ضرورت ہے کہ اہلِ علم، بااخلاق، اور سچے علماء اس میدان میں قدم رکھیں۔ اگر وہ سنجیدگی، حکمت، اور
اخلاص کے ساتھ آئیں، تو سوشل میڈیا کے شور میں سچ کی آواز سنائی دینے لگے گی۔
علماء کا کردار اور سوشل میڈیا میں آمد کی ضرورت
پہلے علم کی رسائی محدود تھی، لوگ مسجد یا علمی محفل میں بیٹھ کر سنتے اور سیکھتے تھے۔ اب یہ علم ڈیجیٹل پلیٹ
فارم کی شکل اختیار کر چکا ہے ایک چھوٹی سی اسکرین جو لمحوں میں ہزاروں دلوں تک پہنچ سکتی ہے۔ مگر
افسوس، اس میدان میں ایسے لوگ بھی آگئے ہیں جو عالم نہیں، صرف آواز یا انداز کے ماہر ہیں، اور اپنی محنت
سے لوگوں کی اصلاح کے بجائے گمراہی پھیلا رہے ہیں۔ الفاظ تو دلوں تک پہنچتے ہیں، مگر اصل دین کا اثر کمزور ہوتا
اسی لیے آج اہلِ علم کا مؤثر اور ذمہ دارانہ قدم اس جدید پلیٹ فارم پر انتہائی ضروری ہے۔ بااخلاق، مستند،
اور حکمت والا علم نوجوان نسل کو صحیح رہنمائی دے سکتا ہے، غلط فہمیوں کو دور کر سکتا ہے، اور سوشل میڈیا
کی طاقت کو دین کی خدمت میں استعمال کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔ جب اہلِ علم یہاں قدم رکھیں گے،
تبھی یہ ڈیجیٹل دنیا واقعی نیکی اور ہدایت کا وسیلہ بن سکتی ہے۔
Eman ki haqeeqat | ایمان کی حقیقت، اقسام اور تفصیل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اہلِ علم کا آن لائن آنا محض تاریخ لکھنے جیسا نہیں؛ یہ حکمتِ دعوت کا تقاضا ہے۔
جب بااخلاق، منصفانہ اور قابلِ اعتماد علماء سوشل میڈیا کے ذریعے مخاطب ہوں گے، نوجوانوں کے ذہنوں میں
شکوک کم ہوں گے، غلط فہمیاں درست ہوں گی، اور دینی گفتگو میں وقار بحال ہوگا۔
تاہم بہت سے روایتی یا قابلِ احترام علماء سوشل میڈیا پر کم یا محتاط انداز میں موجود ہیں۔ اس کی چند اہم
- غیر مستند مواد کی بھرمار: آن لائن پلیٹ فارم پر سچ اور غلط کی تمیز آسان نہیں، اور چھوٹی سی غیر مصدقہ بات بھی تیزی سے پھیل کر نوجوانوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر سکتی ہے۔
- علم اور وقار کی حفاظت: علماء کا مقصد دین کی خدمت اور لوگوں کی ہدایت ہے۔ بعض اوقات آن لائن سرگرمی دکھاوے یا توجہ مرکوز کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے، جو علم اور وقار کے ساتھ ہم آہنگ نہیں۔
- تدبیر اور علمی ذمہ داری: وقت اور توانائی کی صحیح تقسیم ضروری ہے۔ بغیر حکمت اور منصوبہ بندی کے مواد شائع کرنا علمی کام کے معیار کو متاثر کر سکتا ہے اور بحث و مباحثہ میں الجھانے کا سبب بن سکتا ہے۔
- نقد و تنقید کا سامنا: آن لائن پلیٹ فارم پر علماء پر مبالغہ آمیز تنقید یا نادانی پر مبنی الزامات لگ سکتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض بزرگ علمائے کرام محتاط رہتے ہیں تاکہ دین کی خدمت میں خلل نہ پڑے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض علماء ابھی بھی محتاط ہیں: وہ جانتے ہیں کہ بغیر حکمت، نظم، اور علمی احتیاط کے یہ میدان
فتنہ، غلط فہمی، اور وقت کے ضیاع کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے وہ انتظار کرتے ہیں یا صرف محدود اور
معیاری انداز میں حصہ لیتے ہیں تاکہ دین کی خدمت اور وقار برقرار رہے۔
اگر اہلِ علم مؤثر انداز میں آئیں تو کیا فرق پڑے گا؟
اگر اہلِ علم، بااخلاق، معتدل اور مستند علماء سوشل میڈیا پر سنجیدگی، اخلاص اور منصوبہ بندی کے ساتھ قدم
رکھیں، تو اس کے بے شمار مثبت اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔
- سب سے پہلے، دین کی صحیح ترجمانی ممکن ہو سکے گی۔ آج بہت سے لوگ سوشل میڈیا سے دین کے مسائل سیکھتے ہیں، لیکن اکثر وہ ایسی معلومات سے متاثر ہوتے ہیں جن کا کوئی مضبوط ماخذ نہیں۔ اگر اہلِ علم خود اس میدان میں موجود ہوں، تو وہ غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں، ضعیف یا غلط روایات کی اصلاح کر سکتے ہیں، اور قرآن و سنت کی اصل تعلیمات کو عام فہم انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔
- دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ نوجوان نسل، جو زیادہ وقت آن لائن گزارتی ہے، اسے دین سے محبت اور تعلق کے نئے زاویے سے روشناس کرایا جا سکتا ہے۔ آج کے نوجوان متاثر ہوتے ہیں اس انداز سے، جو سادہ، دل کو چھو لینے والا اور سچائی پر مبنی ہو۔ اگر علمائے کرام اپنے علم کو جدید انداز میں مختصر ویڈیوز، تحریری اقوال، یا سوال و جواب کی نشستوں کے ذریعے پیش کریں، تو وہ دلوں تک پہنچ سکتے ہیں، جہاں شاید منبر کی آواز اب کم سنی جاتی ہے مگر سکرین کی روشنی ہر وقت جلتی رہتی ہے۔
- تیسرا، یہ موجودہ فتنوں کا تدارک بن سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بے حیائی، غلط نظریات، اور اسلام کے خلاف مہمات عام ہیں۔ اگر اہلِ علم یہاں موجود ہوں، تو وہ علم، حکمت اور محبت کے ساتھ اس کا جواب اور توازن فراہم کر سکتے ہیں۔ ان کی موجودگی نیکی کو مضبوط اور فتنے کو کمزور کر سکتی ہے۔
یہ قدم صرف ایک حکمتِ عملی نہیں بلکہ دعوتِ دین کی نئی جہت ہے۔ جس طرح ماضی میں قلم، منبر اور درسگاہیں
دین کے پیغام کا ذریعہ تھیں، آج سوشل میڈیا وہ نیا وسیلہ ہے جس کے ذریعے علم اور خیر لاکھوں دلوں تک پہنچ
اگر یہ فریضہ اہلِ علم نے سنبھال لیا، تو ان شاء اللہ یہ ڈیجیٹل دنیا ہدایت، علم اور خیر کی محفل بن سکتی ہے۔
عملی وجوہات (مختصر مگر فیصلہ کن)
- رسائی (Reach): سوشل میڈیا ایک وقت میں لاکھوں انسانوں تک پہنچ سکتا ہے اگر اہلِ علم دانشمندی سے استعمال کریں تو تعلیمِ دین کی رفتار کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔
- غلط معلومات کا مقابلہ: جہاں غلط بیانی اور کم علم افراد وائرل ہوتے ہیں، وہاں باعلم علماء فوری، مؤدب اور حوالہ دار اصلاح فراہم کر سکتے ہیں۔
- نوجوانوں سے رابطہ: نوجوان نسل آن لائن ہے اگر علم اُن کے سماجی میڈيا کے انداز میں بیان ہوا تو اثر بڑھتا ہے۔
- تیز ردعمل (Rapid response): فتنہ یا غلط فہمیاں فوراً پھیلتی ہیں؛ علماء جب فوری پیغام دیں تو نقصان کم ہو سکتا ہے۔
علماء کرام کے نام ایک مؤدبانہ عرض نامہ
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، مگر باطل کی رفتار اس سے بھی زیادہ تیز ہے۔ افسوس یہ ہے کہ آج کے ڈیجیٹل منبر پر
اکثر وہ لوگ بیٹھے ہیں جن کے پاس نہ علم ہے نہ ذمہ داری کا شعور۔ وہ دین کو اپنی پسند، جذبات یا مفاد کے مطابق
پیش کرتے ہیں اور لاکھوں ذہنوں تک یہ بگاڑ چند لمحوں میں پہنچ جاتا ہے۔ ایسے وقت میں خاموشی بھی کبھی کبھی
نقصان بن جاتی ہے۔
قوم کی نظریں آپ پر ہیں کہ جو علم و تقویٰ کے وارث ہیں، وہ آگے بڑھ کر حق کی آواز کو اپنے ہاتھوں سے
سنواریں۔ سوشل میڈیا محض ایک تفریحی جگہ نہیں، بلکہ آج کی سب سے بڑی علمی مجلس ہے۔ یہاں نوجوان
سوال کرتے ہیں، الجھتے ہیں، اور کبھی غلط سمت میں چلے جاتے ہیں صرف اس لیے کہ وہاں اہلِ علم کی کمی
ہماری گزارش بس اتنی ہے: علماء کرام اس میدان میں اپنی موجودگی ظاہر کریں۔ اپنے علم، حلم، اور توازن
سے ان پلیٹ فارمز کو خیر اور روشنی سے بھر دیں۔ جو دین کو بگاڑ رہے ہیں، انہیں عزت اور دلیل سے جواب
کیونکہ خاموشی وہاں نقصان دیتی ہے، جہاں باطل چیخ رہا ہو۔
قرآن کہتا ہے:
“وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ”
“اور ان سے بہترین انداز میں گفتگو کرو۔” (النحل: 125)
یہی طریقہ آج کے آن لائن میدان میں بھی مطلوب ہے۔ دلائل، اخلاق، اور حکمت کے ساتھ تاکہ دین کا حسن
نوجوان دینی کارکنوں کے لیے چند باتیں (جو سوشل میڈیا پر دینی کام کر رہے ہیں)
اے دین کے خدمت گزارو! آپ اس دور کی نئی صفِ دعوت ہیں جہاں انگلیوں سے قلم نہیں، “کلیماتِ نور”
سفر کرتے ہیں۔ اپنی نیت کو ہمیشہ خالص رکھو، چاہے تعریف نہ ملے۔ تحقیق کے بغیر کچھ مت لکھو سچائی ہی
تمہاری پہچان ہے۔ اختلاف کو دشمنی نہ بناؤ، بلکہ مکالمہ کا دروازہ کھلا رکھو۔ ہر لفظ لکھنے سے پہلے سوچو: کیا یہ اللہ کو
راضی کرے گا یا میرے نفس کو؟ یاد رکھو یہ دور کلام کا نہیں، کردار کا امتحان ہے۔ تمہارا لہجہ، تمہاری نیت، اور
تمہارا طرزِ عمل ہی تمہاری اصل تبلیغ ہے۔
انجامِ کلامم ایک دعا
اے اللہ!ہمیں علم عطا فرما جو عمل کو جنم دے، ہمیں زبان عطا فرما جو دلوں کو جوڑے، نہ توڑے، ہمیں وہ
بصیرت دے جو باطل کو پہچانے، اور وہ حکمت دے جو حق کو خوبصورتی سے پھیلائے۔
اے ربّ!
ہمیں فتنوں کے اس دور میں خیر کے علمبردار بنا، ہماری تحریروں، آوازوں اور ارادوں کو دین کی خدمت میں
قبول فرما، اور ہمیں اُن لوگوں میں شامل کر جو اندھیروں میں روشنی پھیلاتے ہیں۔
آمین یا ربّ العالمین 🤲
مواد از Wisdom Afkar


