حضرت خضر علیہ السلام کا سبق آموز واقعہ
اللہ تعالیٰ کے مقرب اور برگزیدہ بندے اپنی زندگی کے ہر لمحے میں ایک ایسا پیغام چھوڑ جاتے ہیں جو آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہوتا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام کا یہ واقعہ بھی انہی میں سے ایک ہے، جو ہمیں اللہ کی رضا پر راضی رہنے اور دنیاوی لذتوں سے بے رغبتی کا درس دیتا ہے۔
سائل کا سوال اور خضر علیہ السلام کی بے خودی
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن حضرت خضر علیہ السلام دریا کے کنارے بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک سائل آیا اور نہایت عاجزی سے کہنے لگا:
"میں آپ سے اللہ کے واسطے سوال کرتا ہوں، مجھے کچھ عنایت فرمائیے۔"
یہ الفاظ سنتے ہی حضرت خضر علیہ السلام پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ جب افاقہ ہوا تو فرمانے لگے:
"بھائی! تم نے مجھ سے اللہ کے واسطے مانگا ہے، اور میں تو صرف اپنی جان اور ذات کا مالک ہوں۔ اس لیے میں اپنی جان تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ تم چاہو تو مجھے بیچ دو اور اس کی قیمت سے فائدہ اُٹھاؤ۔"
غلامی کا مرحلہ
سائل نے انہیں بازار میں لے جا کر ایک شخص ساحمہ بن ارقم کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ ساحمہ انہیں اپنے گھر لے آیا۔ گھر کے پیچھے اس کا ایک بڑا باغ تھا۔ اس نے حضرت خضر علیہ السلام کو ایک کدال تھما کر کہا:
"سامنے جو پہاڑ ہے، اس کی مٹی کاٹ کاٹ کر باغ میں ڈالتے رہو۔"
یہ پہاڑ تقریباً تین مربع میل رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ ساحمہ یہ حکم دے کر کسی کام سے باہر چلا گیا۔
حضرت خضر علیہ السلام خاموشی سے اللہ کا نام لے کر کام میں لگ گئے۔ جب ساحمہ واپس آیا تو اس نے گھر والوں سے پوچھا:
"غلام کو کھانا کھلایا یا نہیں؟"
انہوں نے جواب دیا: "ہمیں معلوم نہیں وہ کہاں ہے۔"
ساحمہ خود کھانا لے کر باغ کی طرف گیا۔ لیکن جب اس نے منظر دیکھا تو حیرت سے بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔ وہ عظیم پہاڑ جسے کاٹنے کا حکم دیا گیا تھا، پوری مٹی پہلے ہی باغ میں ڈالی جا چکی تھی، اور حضرت خضر علیہ السلام فارغ ہو کر اپنے رب کی عبادت میں مشغول تھے۔
حقیقت کا انکشاف
ساحمہ نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا:
"یہ تو بتائیے، آپ آخر ہیں کون؟"
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا:
"میں خضر ہوں۔"
یہ سنتے ہی ساحمہ کے ہوش اُڑ گئے۔ وہ چیخ اٹھا:
"افسوس! میں نے اللہ کے ایک برگزیدہ نبی کو غلام بنا کر کام پر لگایا۔ یہ تو بڑی گستاخی ہوئی۔"
اس نے فوراً توبہ کی، حضرت خضر علیہ السلام کو آزاد کیا اور اللہ کے حضور عرض کیا:
"پروردگار! مجھ سے اس کا مواخذہ نہ فرمانا، میں ان کو پہچانتا نہیں تھا۔"
سجدہ شکر
حضرت خضر علیہ السلام نے آزادی پانے کے بعد سجدہ شکر بجا لایا اور فرمایا:
"اے میرے پروردگار! میں تیرے ہی حق میں غلام بنا اور تیرے ہی حق میں آزاد ہوا، اس پر تیرا شکر گزار ہوں۔"
شاذون کی دعا
اس کے بعد حضرت خضر علیہ السلام دریا پر واپس آئے تو دیکھا کہ ایک شخص دعا کر رہا ہے:
"اے رب! حضرت خضر علیہ السلام کو غلامی سے رہائی عطا فرما اور ان کی توبہ قبول فرما۔"
حضرت خضر علیہ السلام نے پوچھا: "تم کون ہو؟"
اس نے جواب دیا: "میں شاذون ہوں۔"
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا: "میں خضر ہوں۔"
دنیا اور آخرت کا امتحان
شاذون نے کہا:
"اے خضر! تم نے اپنے لیے ایک عبادت خانہ بنا کر دنیا کی طرف رغبت کی ہے۔"
یہ سن کر حضرت خضر علیہ السلام فوراً وہاں سے نکلے اور کھلے میدان میں اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگئے۔
پھر آپ نے ایک درخت لگایا اور اس کے سائے میں سجدہ کیا تو آواز آئی:
"اے خضر! جب تم نے درخت کے سائے میں سجدہ کیا تو تم نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی۔ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے، مجھے دنیا کی محبت ہرگز پسند نہیں۔"
یہ سن کر حضرت خضر علیہ السلام بہت لرز گئے اور شاذون فرشتے سے کہا:
"میرے لیے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرمائے۔"
چنانچہ شاذون نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی برکت سے حضرت خضر علیہ السلام کی توبہ قبول فرما لی۔
سبق
اس واقعے سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ اللہ کے برگزیدہ بندے ہمیشہ اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہیں۔ نہ وہ دنیاوی لذتوں کے طالب ہوتے ہیں اور نہ ہی آرام و سہولت کے محتاج۔ ان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی ہوتی ہے۔
عمرہ کا مسنون طریقہ جاننے کیلئے کلک کریں
ہمیں بھی چاہیے کہ ہر حال میں اللہ کی مرضی کو مقدم رکھیں، چاہے حالات آسان ہوں یا مشکل۔ اسی میں ہماری اصل فلاح ہے۔
دعا
اللہ تعالیٰ ہمیں اس واقعے سے سبق لینے، اپنی زندگی کو اس کی رضا کے مطابق ڈھالنے اور ہر حال میں شکر گزار رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔
Content by Wisdom Afkar
The Inspiring Story of Hazrat Khizr (A.S)
There are stories from the lives of Allah’s chosen servants that carry lessons far beyond time. One such story is about Hazrat Khizr (A.S) a story that reminds us what it truly means to surrender to Allah’s will.
A Beggar’s Request
One day, Hazrat Khizr (A.S) was sitting by the riverbank when a poor man approached him and said, “I ask you in the name of Allah, please give me something.”
Hearing these words, Khizr (A.S) lost his senses for a while. When he regained consciousness, he said softly:
“Brother, you have asked me in Allah’s name. And I only own my life and my self. So I hand myself over to you. Do with me as you wish even sell me if that benefits you.”
Sold as a Slave
The beggar took him to the marketplace and sold him to a man named Sahmah ibn Arqam. Sahmah brought Khizr (A.S) home, handed him a spade, and pointed towards a massive mountain behind his garden.
"Cut the soil from that mountain and bring it into the garden," he ordered.
The mountain stretched across nearly three square miles. Sahmah left for his errands, not expecting much. But when he returned, he was stunned every bit of the mountain’s soil had been moved into the garden! And Khizr (A.S), calm and composed, was already lost in prayer.
The Truth Revealed
Shocked, Sahmah asked, “Who are you?”
Khizr (A.S) replied, “I am Khizr.”
Sahmah’s heart sank. Realizing what he had done forcing a great servant of Allah into slaveryhe trembled with fear. He immediately freed Khizr (A.S) and begged Allah for forgiveness, saying:
"O Lord, forgive me! I did not know who he was."
Khizr (A.S), freed once more, fell into prostration and prayed:
"O Allah, I became a slave for Your sake, and I am freed for Your sake. For that, I am ever grateful."
The Test of Contentment
Later, Khizr (A.S) built a small place of worship by the river. But then he heard a voice:
"O Khizr! By seeking comfort in a shelter, you have preferred this world over the Hereafter. I do not accept the love of this world for My chosen ones."
Realizing his mistake, Khizr (A.S) immediately abandoned the shelter, went into the open field, and devoted himself to Allah’s worship once again.
He then prayed for forgiveness, and by the intercession of the angel Shazoon, Allah accepted his repentance.
The Lesson
This story of Hazrat Khizr (A.S) isn’t just about the past. It whispers a timeless truth to us: real freedom is in surrender, and true peace is in being content with Allah’s will.
The world offers shadows, but Allah’s pleasure is the only lasting light.
Content by Wisdom Afkar

